بقلم سید عدیل زیدی
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یکساں نصاب تعلیم پر اہل تشیع علمائے کرام، اکابرین اور دانشور حضرات نے روز اول سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، اس حوالے سے شیعہ قائدین نے حکومتی اور ذمہ دار شخصیات کے ساتھ کئی ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں اور اس حوالے سے ملت تشیع کے تحفظات و اعتراضات بھی پہنچائے جاچکے ہیں، یکساں نصاب تعلیم کے مسئلہ پر تمام شیعہ تنظیموں، دینی مراکز، اہم شخصیات اور طبقات نے بھرپور اور بروقت صدائے احتجاج بلند کی، جس کی وجہ سے متعلقہ حکومتی نمائندے اس جانب متوجہ ہوئے۔ اس رپورٹ میں یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے شیعہ تنظیموں، دینی مراکز، اہم شخصیات اور طبقات کی جانب سے اپنائے جانے والے اصولی موقف اور تحفظات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کا یکساں نصاب پر موقف:
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان نے سب سے پہلے ملک میں یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے شیعہ قیادت کی جانب سے آواز اٹھائی، جون 2021ء میں وفاق المدارس الشیعہ پاکستان نے یکساں نصاب پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تعلیمی نصاب میں مشترکات پر توجہ دی جائے، نفرت اور اختلاف پیدا کرنیوالے امور کو شامل نہ کیا جائے۔ جامعۃ المنتظر لاہور میں رئیس الوفاق آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں واضح کیا گیا کہ درود میں تبدیلی پر اجلاس میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ نئے متعارف کروائے گئے درود میں شامل عبارت کی تائید قرآن و سنت سے نہیں ہوتی، اسے درست کیا جائے۔ یکساں قومی نصاب کے نام پر تیار کردہ سلیبس قرآن و سنت، آئین پاکستان اور قومی وحدت کی روح کے منافی ہے۔ نصاب سے اہل بیت اطہارؑ اور امہات المومنین رضی اللہ عنہم کا تذکرہ ختم کر دیا گیا ہے یا اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ جنگ خندق، خیبر اور دیگر غزوات میں حضرت علی علیہ السلام کے کردار کا ذکر ختم کر دیا گیا ہے، جبکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسلام کی دعوت و تبلیغ کے پہلے جلسے میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کا ذکر ختم کر دیا گیا ہے، جو اس جلسے کے میزبان تھے، اسی طرح حضرت امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا نصاب میں ذکر ہی نہیں کیا گیا، جو کہ ناقابل برداشت ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا یکساں نصاب پر وائٹ پیپر:
یکساں نصاب پر مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے تحفظات پر مبنی وائٹ پیپر جاری کیا گیا، اس وائٹ پیپر میں موقف اپنایا گیا کہ موجودہ یکساں قومی نصاب اپنی موجودہ حالت میں قابل قبول نہیں اور ملک کو مزید انتشار اور تفریق کی جانب دھکیلنے کا باعث بنے گا۔ قومی اتفاق رائے کے بغیر اس یکساں قومی نصاب پر عمل درآمد مناسب عمل نہیں ہوگا۔ ملت جعفریہ یہ سمجھتی ہے کہ یکسان نصاب کو حقیقی معنوں میں مشترک ہونا چاہیئے، اسے کسی ایک فرقے کا نصاب نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر مشترک دینیات کے نام پر مسلکی دینیات نافذ ہوگئی، جیسا کہ موجودہ دینیات کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے، تو امامت اور اہل بیت اطہار (ع) کی تعلیمات کا ذخیرہ اور تصور حیات غریب ہو جائے گا۔ شیعہ بچوں کا ایمان اور عقیدہ بھی شدید خطرے کی زد میں رہے گا۔ یا پھر شیعہ بچوں کے لئے دینیات علیحدہ شائع ہو، جس کے نصاب سے لیکر کتاب بنانے تک شیعہ ماہرین تعلیم اور علماء شامل ہوں اور سکولوں میں پڑھانے کے لیے بھی شیعہ اساتذہ بھرتی کئے جائیں اور اسی کے مطابق امتحانی نظام ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ بھٹو دور میں حکومت نے منظوری دی اور علیحدہ شیعہ دینیات نافذ رہی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی دینیات کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک حصہ شیعہ، سنی کے درمیان مشترک اور دو حصے شیعہ، سنی بچوں کیلئے علیحدہ ترتیب دیئے جائیں۔ یہ تینوں حصے ایک ہی کتاب میں شائع ہوں، ہر حصے کو بنانے والے ماہرین تعلیم اور علماء مختلف ہوں اور امتحانی نظام بھی اسی کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ 1975ء کی اسلامیات کے ذریعے ملک میں نافذ رہا تو کم از کم یہ دینیات ایسی ہو جسے شیعہ بچے اطمینان سے پڑھ اور اپنے امتیازی عقائد و نظریات پر فخر کرسکیں، وگرنہ نوجوان نسل کو عقیدے و ایمان کے لحاظ سے ایک ایسا احساس کمتری دامن گیر ہوجائے گا کہ وہ پھر کبھی ایک باوقار دیندار شخصیت نہیں بن سکیں گے۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے تحفظات:
شیعہ علماء کونسل پاکستان نے قومی نصاب تعلیم کو یکساں اور متفقہ بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نصاب تعلیم متنازعہ نہیں قومی ہونا چاہیئے، جو تمام طبقات کیلئے قابل قبول ہو۔ اس امر کا اعلان ایس یو سی پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا گیا، جس کی صدارت ایس یو سی کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کی۔ یہ اجلاس رواں سال 27 فروری کو راولپنڈی میں منعقد ہوا، اس اجلاس کا اہم ترین نقطہ یکساں نصاب تعلیم ہی تھا۔ اجلاس میں قومی نصاب تعلیم کے حوالے سے اراکین مجلس عاملہ نے بغور جائزہ لیا اور کہا کہ اس بارے میں اقدامات تبھی بارآور ثابت ہوسکتے ہیں، جب قومی نصاب تعلیم کو یکساں خطوط پر استوار کیا جائے۔ اس اجلاس میں شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ شبیرحسن میثمی، علامہ محمد رمضان توقیر، علامہ محمد افضل حیدری، علامہ سید ناظر عباس تقوی، زاہد علی آخونزادہ، سید مصور حسین نقوی اور سید الطاف حسین کاظمی،معظم علی بلوچ ایڈووکیٹ، سید سکندر عباس گیلانی ایڈووکیٹ، آخونزادہ مظفر علی اور سید الطاف عباس کاظمی شریک ہوئے۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان:
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر زاہد مہدی نے کہا ہے کہ نیا سرکاری یکساں نصابِ تعلیم آئین کے متصادم اور قائداعظم کے اصولوں کے بر خلاف ہے، یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے اگر مکتب تشیع کے تحفظات کو فوری حل نہ کیا گیا تو ملک گیر احتجاج کا آغاز کریں گے۔
مجلس علماء امامیہ پاکستان:
مجلس علماء امامیہ پاکستان کی جانب سے مبلغین امامیہ کو اس امر سے آگاہ کیا گیا کہ نیا متنازعہ یکساں نصاب آئینی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگاتا اور مذہبی رواداری کے ماحول کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ مجلس علماء امامیہ پاکستان نے متنازعہ نصاب کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نصاب کے حوالے سے شیعہ اکابرین کے تحفظات کو جلد سے جلد دور کرے اور نصاب تعلیم میں شیعہ بچوں کو ان کے اپنے عقیدے اور فقہ و حدیث کے مطابق تعلیم دینے کو یقینی بنایا جائے۔
جعفریہ الائنس پاکستان:
جعفریہ الائنس پاکستان کے صدر علامہ سید رضی جعفر نقوی کا کہنا تھا کہ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ملت تشیع کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یکطرفہ اقدامات ہو رہے ہیں جو آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے، یکساں نصاب تعلیم کا مسئلہ انتہائی حساس نوعیت کا مسئلہ ہے، اس سلسلے میں جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ تعصب پر مبنی ہیں، اس لئے حکومت وقت نصاب کے مسئلے پر نظرثانی کرے۔
علامہ محمد امین شہیدی کا موقف:
امت واحدہ کے سربراہ علامہ امین شہیدی کا اسلام ٹائمز کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ نصاب تعلیم کا مسئلہ پوری پاکستانی قوم کیلئے انتہائی اہم ہے، یہ صرف مکتب تشیع کا مسئلہ نہیں، اگرچہ مکتب تشیع نے اس مسئلہ پر اپنی حساسیت دکھائی ہے اور اس کے بعض پہلووں کو کافی حد تک اجاگر کیا ہے، لیکن اس کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے۔ ایک قوم، ایک نصاب کا نعرہ بڑا پیارا ہے، لیکن اس کے اہداف انتہائی خطرناک ہیں۔ ہماری ریاست مستقبل میں ایک ایسے نصاب کی طرف جا رہی ہے، جس میں ہمارے بچے گھر میں مسلمان پیدا ہوں، تعلیمی اداروں میں جا کر سیکولر ہو جائیں اور جب تعلیمی اداروں سے ڈگریز لیکر فارغ ہو جائیں تو دین کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں، ایسی منصوبہ بندی ہوچکی ہے اور اس کا ذریعہ یہ نصاب تعلیم ہے۔ جو نصاب تعلیم ڈیزائن کیا جا رہا ہے اور رفتہ رفتہ لاگو کیا جائے گا، وہ صرف اور صرف اسلامیات کے حوالے سے قابل اعتراض نہیں ہے، صرف اردو کی کتابوں کے حوالے سے قابل اعتراض نہیں ہے بلکہ برصغیر کی تاریخ کو مسخ کرنے کے حوالے سے، اسلامی تاریخ کو تبدیل کرنے کے حوالے سے، قرآنی اقدار کی پائمالی کے حوالے سے اور مختلف اخلاقی بحثوں میں سے روح نکال کر بچوں کو الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
تحریک حسینی پاراچنار کے سپریم لیڈر علامہ سید عابد حسین الحسینی:
سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے اسلام ٹائمز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ مجوزہ نصاب سے اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ذکر کو نکال کر دشمنان اہلبیتؑ کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ تو ثابت ہو رہا ہے کہ یہ ناصبی اور دشمنی اہلبیتؑ ہے۔ تاہم شیعیان علیؑ اس کے خلاف ملکی سطح پر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے اس کا راستہ روکیں گے۔ صحابہ کرام کے حوالے سے ہمارے کوئی تحفظات نہیں۔ جو صحابہ کرام ہیں، وہ ہمارے سر کے تاج ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مابین جو ہستیاں متفق علیہ ہیں۔ اس پر تو کوئی بات ہی نہیں کی جا رہی۔ مگر اہلبیت علیہم السلام بالخصوص مولا علی علیہ السلام کے حوالے سے تو کوئی تنازعہ ہی نہیں۔ یہ تو تمام مسلمانوں کے مابین غیر متنازعہ بلکہ مقدس ترین ہیں۔ اہلبیت ؑکے حوالے سے تو خود سلف صالحین کے مابین بھی کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا، بلکہ امام شافعی کے ایک معروف شعر سے تو ہر مومن واقف ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اے اہلبیت محمدؑ، آپکی فضیلت کے لئے تو یہی کافی ہے کہ جو بھی نماز میں آپ پر صلوات نہ بھیجے، اس کی نماز ہی قبول نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ امام احمد بن حنبل کا اپنے بیٹے کو یہ جواب دینا بھی اہلبیت علیہم السلام کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے کہ اہلبیت اور ہستیاں ہیں جبکہ صحابہ کچھ اور۔ چنانچہ اہلبیت کے حوالے سے کوئی تنازعہ موجود نہیں۔
علامہ سید جواد نقوی کا موقف:
مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ و تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ یکساں نصاب تعلیم بظاہر ایک مقبول تصور ہے، لیکن مقصدیت اور ضرورت کا درست ادراک، حکمت اور بصیرت کے بجائے سیاسی نعرے کی بنیاد پر اختیار کیا گیا تو ڈر ہے کہیں یہ ملک میں یکساں جہالت کے فروغ کا باعث نہ بن جائے۔ ماہرین تعلیم ہوں، سماجی کارکن، یا پھر علماء جو بھی تعلیم کے نظام کو بہت قریب سے دیکھ رہیں وہ حکومت کے یکساں نصاب پر بھرپور انداز میں تنقید کر رہے ہیں، جس میں پہلا سوال یہ کہ یکساں تعلیمی نظام ملک کی اولین ضرورت ہے یا پھر یکساں نصاب؟ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا خیال ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ملک میں طبقاتی تقسیم پیدا کر رہا ہے اور نصاب یکساں کر دینے سے یہ تقسیم ختم ہو جائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں طبقاتی تقسیم کی وجہ نظام تعلیم سے زیادہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔
ٹی این ایف جے کے سربراہ علامہ حامد علی موسوی:
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ علامہ سید حامد علی موسوی نے بھی یکساں نصاب کو تعلیم قرآن و سنت سے انحراف اور نظریہ اساسی سے متصادم قرار دیا ہے، آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا ہے کہ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ اوردین محمدی ؐپر استوار ہے جب ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بن سکتا تو نصاب بھی تشکیل اور تبدیل نہیں کیا جاسکتا آئین کی روح اور آئندہ نسلوں کا مستقبل بچانے کیلئے بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نیا نصاب حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور ملک و قوم کو افتراق کی ایک نئی دلدل میں دھکیلنے کی سازش ہے نصاب کی تیاری میں مکتب تشیع کو سرے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا، کالعدم جماعتوں کو نمائندہ تسلیم نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
242